لندن میں گرینڈ آیت اللہ سید علی امام سیستانی (دام ظله)، یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ کے رابطہ دفتر.

توضیح المسائل

مال غنیمت

1837۔ اگر مسلمان امام علیه السلام کے حکم سے کفار سے جنگ کریں اور جو چیزیں جنگ میں ان کے هاتھ لگیں انهیں "غنیمت" کها جاتا هے۔ اور اس مال کی حفاظت یا اس کی نقل و حمل وغیره کے مصارف منها کرنے کے بعد اور جو رقم امام علیه السلام اپنی مصلحت کے مطابق خرچ کریں اور جو مال، خاص امام علیه السلام کا حق هے اسے علیحده کرنے کے بعد باقیمانده پر خمس ادا کیا جائے۔ مال غنیمت پر خمس ثابت هونے میں اشیائے منقوله اور غیر منقوله میں کوئی فرق نهیں۔ هاں جن زمینوں کا تعلق "انفال" سے هے وه تمام مسلمانوں کی مشترکه ملکیت هیں اگرچه جنگ امام علیه السلام کی اجازت سے نه هو۔

1838۔ اگر مسلمان کافروں سے امام علیه السلام کی اجازت کے بغیر جنگ کریں اور ان سے مال غنیمت حاصل هو تو جو غنیمت حاصل هو وه امام علیه السلام کی ملکیت هے اور جنگ کرنے والوں کا اس میں کوئی حق نهیں۔

1839۔ جو کچھ کافروں کے هاتھ میں هے اگر اس کا مالک مُحتَرمُ المَال یعنی مسلمان یا کافرِ ذمّی هو تو اس پر غنیمت حاصل هو تو جو غنیمت حاصل هو وه امام علیه السلام کی ملکیت هے اور جنگ کرنے والوں کا اس میں کوئی حق نهیں۔

1840۔ کافر حَربه کا مال چرانا اور اس جیسا کوئی کام کرنا اگر خیانت اور نقص امن میں شمار هو تو حرام هے اور اس طرح کی جو چیزیں ان سے حاصل کی جائیں احتیاط کی بنا پر ضروری هے که انهیں لوٹا دی جائیں۔

1841۔ مشهور یه هے که ناصبی کا مال مومن اپنے لئے لے سکتا هے البته اس کا خمس دے لیکن یه حکم اشکال سے خالی نهیں هے۔