لندن میں گرینڈ آیت اللہ سید علی امام سیستانی (دام ظله)، یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ کے رابطہ دفتر.

توضیح المسائل

زکوٰۃ کے مُتَفَرِّق مَسائِل

1969۔ احتیاط کی بنا پر ضروری هے که انسان گیهوں اور جَو کو بھوسے سے الگ کرنے کے موقع پر اور کھجور اور انگور کے خشک هونے کے وقت زکوٰۃ فقیر کو دے دے یا اپنے مال سے علیحده کر دے۔ اور ضروری هے که سونے، چاندی، گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ گیاره مهینے ختم هونے کے بعد فقیر کو دے یا اپنے مال سے علیحده کر دے لیکن اگر وه شخص کسی خاص فقیر کا منتظر هو یا کسی ایسے فقیر کو زکوٰۃ دینا چاهتا هو جو کسی لحاظ سے (دوسرے پر) برتری رکھتا هو تو وه یه کر سکتا هے که زکوٰۃ علیحده نه کرے۔

1970۔ زکوٰۃ علیحده کرنے کے بعد ایک شخص کے لئے لازم نهیں که اسے فوراً مستحق شخص کو دے دے۔ لیکن اگر کسی ایسے شخص تک اس کی رسائی هو، جسے زکوٰۃ دی جاسکتی هو تو احتیاط مستحب یه هے که زکوٰۃ دینے میں تاخیر نه کرے۔

1971۔ جو شخص زکوٰۃ مستحق شخص کو پهنچا سکتا هو اگر وه اسے زکوٰۃ نه پهنچائے اور اس کے کوتاهی برتنے کی وجه سے مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو ضروری هے که اس کا عوض دے۔

1972۔ جو شخص زکوٰۃ مستحق تک پهنچا سکتا هو اگر وه اسے زکوٰۃ پهنچائے اور مال زکوٰۃ حفاظت کرنے کے باوجود تلف هوجائے تو زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کی کوئی صحیح وجه نه هو تو ضروری هے که اس کا عِوض دے لیکن اگر تاخیر کرنے کی کوئی صحیح وجه تھی مثلاً ایک خاص فقیر اس کی نظر میں تھا یا تھوڑا تھوڑا کر کے فقراء کو دینا چاهتا تھا تو اس کا ضامن هونا معلوم نهیں هے۔

1973۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ (عین اسی ) مال سے ادا کر دے تو وه باقیمانده مال میں تصرف کر سکتا هے اور اگر وه زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے ادا کر دے تو اس پورے مال میں تصرف کرسکتا هے۔

1974۔ انسان نے جو مال زکوٰۃ علیحده کیا هو اسے اپنے لئے اٹھا کر اس کی جگه کوئی دوسری چیز نهیں رکھ سکتا۔

ص:369

1975۔ اگر اس مال زکوٰۃ سے جو کسی شخص نے علیحده کر دیا هو کوئی منفعت حاصل هو مثلاً جو بھیڑ بطور زکوٰۃ علیحده کی هو وه بچه جنے تو وه منفعت فقیر کا مال هے۔

1976۔ جب کوئی شخص مال زکوٰۃ علیحده کر رها هو اگر اس وقت کوئی مستحق موجود هو تو بهتر هے که زکوٰۃ اسے دے دے بجز اس صورت کے که کوئی ایسا شخص اس کی نظر میں هو جسے زکوٰۃ دینا کسی وجه سے بهتر هو۔

1977۔ اگر کوئی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس مال سے کاروبار کرے جو اس نے زکوٰۃ کے لئے علیحده کر دیا هو اور اس میں خساره هو جائے تو اس زکوٰۃ میں کوئی کمی نهیں کرنی چاهئے لیکن اگر منافع هو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری هے که مستحق کو دے دے۔

1978۔ اگر کوئی شخص اس سے پهلے که زکوٰۃ اس پر واجب هو کوئی چیز بطور زکوٰۃ فقیر کو دے دے تو وه زکوٰۃ میں شمار نهیں هوگی اور اگر اس پر زکوٰۃ واجب هونے کے بعد وه چیز جو اس نے فقیر کو دی تھی تلف نه هوئی هو اور فقیر ابھی تک فقیری میں مبتلا هو تو زکوٰۃ دینے والا اس چیز کو جو اس نے فقیر کو دی تھی زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1979۔ اگر فقیر یه جانتے هوئے که زکوٰۃ ایک شخص پر واجب نهیں هوئی اس سے کوئی چیز بطور زکوٰۃ کے لے لے اور وه چیز فقیر کی تحویل میں تلف هو جائے تو فقیر اس کا ذمه دار هے اور جب زکوٰۃ اس شخص پر واجب هو جائے اور فقیر اس وقت تک تنگدست هو تو جو چیز اس شخص نے فقیر کو دی تھی اس کا عوض زکوٰۃ میں شمار کر سکتا هے۔

1980۔ اگر کوئی فقیر یه نه جانتے هوئے که زکوٰۃ ایک شخص پر واجب هوئی اس سے کوئی چیز بطور زکوٰۃ لے لے اور وه چیز فقیر کی تحویل میں تلف هوجائے تو فقیر ذمے دار نهیں اور دینے والا شخص اس چیز کا عوض زکوۃ میں شمار نهیں کر سکتا ۔

1981۔ مستحب هے که گائے، بھیڑ اور اونٹ کی زکوۃ آبرومند فقرا (سفید پوش غریب غربا) کو دی جائے اور زکوٰۃ دینے میں اپنے رشته داروں کو دوسروں پر اور اهل علم کو بے علم لوگوں پر اور جو لوگ هاتھ نه پھیلاتے هوں ان کو منگتوں پر ترجیح دی جائے۔ هاں اگر فقیر کو کسی اور وجه سے زکوٰۃ دینا بهتر هو تو پھر مستحب هے که زکوٰۃ اس کو دی جائے۔

1982۔ بهتر هے که زکوٰۃ علانیه دی جائے اور مستحب صدقه پوشیده طور پر دیا جائے۔

ص:370

1983۔جو شخص زکوۃ دینا چاهتا هو اگر اس کے شهر میں کوئی مستحق نه هو اور وه زکوٰۃ اس کے لئے مُعَیّن مَد میں بھی صرف نه کرسکتا هو تو اگر اسے امید نه هو که بعد میں کوئی مستحق شخص اپنے شهر میں مل جائے گا تو ضروری هے که زکوٰۃ دوسرے شهر لے جائے اور زکوٰۃ کی مُعیّن مد میں صرف کرے اور اس شهر میں لے جانے کے اخراجات حاکم شرع کی اجازت سے مال زکوٰۃ میں سے لے سکتا هے اور اگر مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو وه ذمے دار نهیں هے۔

1984۔ اگر زکوٰۃ دینے والے کو اپنے شهر میں کوئی مستحق مل جائے تب بھی وه مال زکوٰۃ دوسرے شهر لے جاسکتا هے لیکن ضروری هے که اس شهر میں لے جانے کے اخراجات خود برداشت کرے اور اگر مال زکوٰۃ تلف هو جائے تو وه خود ذمے دار هے بجز اس صورت کے که مال زکوٰۃ دوسرے شهر میں حاکم شرع کے حکم سے لے گیا هو۔

1985۔ جو شخص گیهوں، جَو، کشمش اور کھجور بطور زکوٰۃ دے رها هو، ان اجناس کے ناپ تول کی اجرت اس کی اپنی ذمے داری هے۔

1986۔ جس شخص کو زکوٰۃ میں 2 مثقال اور 15 نخود یا اس سے زیاده چاندی دینی هو وه احتیاط مستحب کی بنا پر 2 مثقال اور 15 نخود کم چاندی کسی فقیر کو نه دے نیز اگر چاندی کے علاوه کوئی دوسری چیز مثلا گیهوں اور جو دینے هوں اور ان کی قیمت 2 مثقال اور 15 نخود چاندی تک پهنچ جائے تو احتیاط مستحب کی بنا پر وه ایک فقیر کو اس سے کم نه دے۔

1987۔ انسان کے لئے مکروه هے که مستحق سے درخواست کرے که جو زکوٰۃ اس نے اس سے لی هے اسی کے هاتھ فروخت کردے لیکن اگر مستحق نے جو چیز بطور زکوٰۃ لی هے اسے بیچنا چاهے تو جب اس کی قیمت طے هو جائے تو جس شخص نے مستحق کو زکوٰۃ دی هو اس چیز کو خریدنے کے لئے اس کا حق دوسروں پر فائق هے۔

1988۔ اگر کسی شخص کو شک هو که جو زکوٰۃ اس پر واجب هوئی تھی وه اس نے دی هے یا نهیں اور جس مال میں زکوٰۃ واجب هوئی تھی وه بھی موجود هو تو ضروری هے که زکوٰۃ دے خواه اس کا شک گزشته سالوں کی زکوٰۃ کے متعلق هی کیوں نه هو۔ اور (جس مال میں زکوٰۃ واجب هوئی تھی) اگر وه ضائع هو چکا هو تو اگرچه اسی سال کی زکوٰۃ کے متعلق هی شک کیوں نه هو اس پر زکوٰۃ نهیں هے۔

1989۔فقیر یه نهیں کر سکتا که زکوٰۃ لینے سے پهلے اس کی مقدار سے کم مقدار پر سمجھوته کر لے یا کسی چیز کو اس کی قیمت سے زیاده قمیت پر بطور زکوٰۃ قبل کرے اور اسی طرح مالک بھی یه نهیں کر سکتا که مستحق کو اس شرط پر زکوٰۃ دے که وه

ص:371

مستحق اسے واپس کر دے گا لیکن اگر مستحق زکوٰۃ لینے کے بعد راضی هو جائے اور اس زکوٰۃ کو اسے واپس کر دے تو کوئی حرج نهیں مثلاً کسی شخص پر بهت زیاده زکوٰۃ واجب هو اور فقیر هو جانے کی وجه سے وه زکوٰۃ ادا نه کرسکتا هو اور اس نے توبه کرلی هو تو اگر فقیر راضی هوجائے که اس سے زکوٰۃ لے کر پھر اسے بخش دے تو کوئی حرج نهیں ۔

1990۔انسان قرآن مجید، دینی کتابیں یا دعا کی کتابیں سَهم فیِ سَبِیلِ الله سے خرید کر وقف نهیں کرسکتا۔ لیکن اگر رفاه عامه کے لئے ان چیزوں کی ضرورت هو تو احتیاط لازم کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

1991۔ انسان مال زکوٰۃ سے جائداد خرید کر اپنی اولاد یا ان لوگوں کو وقف نهیں کر سکتا جن کا خرچ اس پر واجب هو تاکه وه اس جائداد کی منفعت اپنے مصرف میں لے آئیں۔

1992۔ حج اور زیارات وغیره پر جانے کے لئے انسان فِی سَبِیلِ الله کے حصے سے زکوٰۃ لے سکتاهے اگرچه وه فقیر نه هو یا اپنے سال بھر کے اخراجات کے لئے زکوٰۃ لے چکا هو لیکن یه اس صورت میں هے جب که اس کا حج اور زیارات وغیره کے لئے جانا لوگوں کے مفاد میں هو اور احیتاط کی بنا پر ایسے کاموں میں زکوٰۃ خرچ کرنے کے لئے حاکم شرع سے اجازت لے لے۔

1993۔اگر ایک مالک اپنے مال کی زکوٰۃ دینے کے لئے کسی فقیر کو وکیل بنائے اور فقیر کو یه احتمال هو که مالک کا اراده یه تھا که وه خود (یعنی فقیر) اس مال سے کچھ نه لے تو اس صورت میں وه کوئی چیز اس میں سے اپنے لئے نهیں لے سکتا اور اگر فقیر کو یه یقین هو که مالک کا اراده یه نهیں تھا تو وه اپنے لئے بھی لے سکتا هے۔

1994۔ اگر کوئی فقیر اونٹ، گائیں، بھیڑیں، سونا اور چاندی بطور زکوٰۃ حاصل کرے اور ان میں وه سب شرائط موجود هوں جو زکوٰۃ واجب هونے کے لئے بیان کی گئی هیں ضروری هے که فقیران پر زکوٰۃ دے۔

1995۔ اگر دو اشخاص ایک ایسے مال میں حصه دار هوں جس کی زکوٰۃ واجب هوچکی هو اور ان میں سے ایک اپنے حصے کی زکوٰۃ دے دے اور بعد میں وه مال تقسیم کرلیں (اور جو شخص زکوٰۃ دے چکا هے) اگرچه اسے علم هو که اس کے ساتھی نے اپنےحصے کی زکوٰۃ نهیں دی اور نه هی بعد میں دے گا تو اس کا اپنے حصے میں تصرف کرنا اشکال نهیں رکھتا۔

ص:372

1996۔ اگر خمس اور زکوٰۃ کسی شخص کے ذمے واجب هو اور کفار اور منت وغیره بھی اس پر واجب هو اور وه مقروض بھی هو اور ان سب کی ادائیگی نه کرسکتا هو تو اگر وه مال جس پر خمس یا زکوٰۃ واجب هوچکی هو تلف نه هوگیا هو تو ضروری هے که خمس اور زکوٰۃ دے اور اگر وه مال تلف هوگیا هو تو کفارے اور نذر سے پهلے زکوٰۃ، خمس اور قرض ادا کرے۔

1997۔جس شخص کے ذمے خمس یا زکوٰۃ هو اور حج بھی اس پر واجب هو اور وه مقروض بھی هو اگر وه مرجائے اور اس کا مال ان تمام چیزوں کے لئے کافی نه هو اور اگر وه مال جس پر خمس اور زکوٰۃ واجب هوچکے هوں تلف نه هوگیا هو تو ضروری هے که خمس یا زکوٰۃ ادا کی جائے اور اس کا باقی مانده مال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے۔ اور اگر وه مال جس پر خمس اور زکوٰۃ واجب هوچکی هو تلف هوگیا هو تو ضروری هے که اس کا مال قرض کی ادائیگی پر خرچ کیا جائے اور اس صورت میں اگر کچھ بچ جائے تو حج کیا جائے اور اگر زیاده بچا هو تو سے خمس اور زکوٰۃ پر تقسیم کر دیا جائے۔

1998۔ جو شخص علم حاصل کرنے میں مشغول هو وه جس وقت علم حاصل نه کرے اس وقت اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرسکتا هے۔ اگر اس علم حاصل کرنا واجب عینی هو تو فقراء کے حصے سے اس کو زکوٰۃ دے سکتے هیں اور اگر اس علم کا حاصل کرنا عوامی بهبود کے لئے هو تو فِی سَبِیلِ الله کی مَد سے احتیاط کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے اس کو زکوٰۃ دینا جائز هے۔ اور ان دو صورتوں کے علاوه اس کو زکوٰۃ دینا جائز نهیں هے۔