لندن میں گرینڈ آیت اللہ سید علی امام سیستانی (دام ظله)، یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ کے رابطہ دفتر.

توضیح المسائل

زکوٰۃ کی نیت

1965۔ ضروری هے که انسان به قصد قربت یعنی الله تبارک و تعالی کی خوشنودی کی نیت سے زکوٰۃ دے اور اپنی نیت میں معین کرے که جو کچھ دے رها هے وه مال کی زکوٰۃ هے یا زکوٰۃ فطره هے بلکه مثال کے طور پر اگر گیهوں اور جَو کی زکوٰۃ اس پر واجب هو اور وه کچھ رقم زکوٰۃ کے طور پر دینا چاهے تو اس کے لئے یه ضروری هے که وه معیں کرے که گیهوں کی زکوٰۃ دے رها هے یا جَو کی۔

1966۔اگر کسی شخص پر متعد چیزوں کی زکوٰۃ واجب هو اور وه زکوٰۃ میں کوئی چیز دے لیکن کسی بھی چیز کی "نیت نه کرے" تو جو چیز اس نے زکوٰۃ میں دی هے اگر اس کی جنس وهی هو جو ان چیزوں میں سے کسی ایک کی هے تو وه اسی جنس کی زکوٰۃ شمار هوگی۔ فرض کریں که کسی شخص پر چالیس بھیڑوں اور پندره مثقال سونے کی زکوۃ واجب هے اگر وه مثلاً ایک بھیڑ زکوٰۃ میں دے اور ان چیزوں میں سے (که جن پر زکوٰۃ واجب هے) کسی کی بھی "نیت" نه کرے تو وه بھیڑوں کی زکوٰۃ شمار هوگی۔ لیکن اگر وه چاندی کے سکے یا کرنسی نوٹ دے جو ان (چیزوں) کے هم جنس نهیں هے تو بعض (علماء) کے بقول وه (سکے یا نوٹ) ان تمام (چیزوں) پر حساب سے بانٹ دیئے جائیں لیکن یه بات اشکال سے خالی نهیں هے بلکه احتمال یه هے که وه ان چیزوں میں سے کسی کی بھی (زکوٰۃ ) شمار نه هونگے اور (نیت نه کرنے تک) مالک مال کی ملکیت رهیں گے۔

1967۔ اگر کوئی شخص اپنے مال کی زکوٰۃ (مستحق تک) پهنچانے کے لئے کسی کو وکیل بنائے تو جب وه مال زکوٰۃ وکیل کے حوالے کرے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که نیت کرے که جو کچھ اس کا وکیل بعد میں فقیر کو دے گا وه زکوٰۃ هے اور اَحوطَ یه هے که زکوٰۃ فقیر تک پهنچے کے وقت تک پهنچنے کےوقت تک وه اس نیت پر قائم رهے۔

ص:368

1968۔ اگر کوئی شخص مال زکوٰۃ قصد قربت کے بغیر زکوٰۃ کی نیت سے حاکم شرع یا فقیر کو دے دے تو اقوی کی بنا پر وه مال زکوٰۃ میں شمار هوگا اگرچه اس نے قصد قربت کے بغیر ادا کرکے گناه کیا هے۔