لندن میں گرینڈ آیت اللہ سید علی امام سیستانی (دام ظله)، یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ کے رابطہ دفتر.

توضیح المسائل

خمس کا مصرف

1843۔ ضروری هے که خمس دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس کا ایک حصه سادات کا حق هے اور ضروری هے که کسی فقیر سید یا یتیم سید یا ایسے سید کو دیا جائے جو سفر میں ناچار هوگیا هو۔ اور دوسرا حصه امام علیه السلام کا هے جو ضروری هے که موجوده زمانے میں جامع الشرائط مجهتد کر دیا جائے یا ایسے کاموں پر جس کی وه مجتهد اجازت دے خرچ کیا جائے اور احتیاط لازم یه هے که وه مرجع اعلم عمومی مصلحتوں سے آگاه هو۔

1844۔ جس یتیم سید کو خمس دیا جائے ضروری هے که وه فقیر بھی هو لیکن جو سید سفر میں ناچار هو جائے وه خواه اپنے وطن میں فقیر نه بھی هو اسے خمس دیا جاسکتا هے۔

1845۔ جو سید سفر میں ناچار هوگیا هو اگر اس کا سفر گناه کا سفر هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که اسے خمس نه دیا جائے۔

1846۔ جو سید عادل نه هو اسے خمس دیا جاسکتا هے لیکن جو سید اثنا عشری نه هو تو ضروری هے که اسے خمس نه دیا جائے۔

1847۔ جو سید گناه کا کام کرتا هو اگر اسے خمس دینے سے گناه کرنے میں اس کی مدد هوتی هو تو اسے خمس نه دیا جائے اور احوط یه هے که اس سید کو بھی خمس نه دیا جائے جو شراب پیتاهو یا نماز نه پڑھتا هو یا علانیه گناه کرتا هو گو خمس دینے سے اسے گناه کرنے میں مدد نه ملتی هو۔

1848۔ جو شخص کهے که سید هوں اسے اس وقت تک خمس نه دیا جائے جب تک دو عادل اشخاص اس کے سید هونے کی تصدیق نه کردیں یا لوگوں میں اس کا سید هونا اتنا مشهور هو که انسان کو یقین اور اطمینان هو جائے که وه سید هے۔

1849۔کوئی شخص اپنے شهر میں سید مشهور هو اور اس کے سید نه هونے کے بارے میں جو باتیں کی جاتی هوں انسان کو ان پر یقین یا اطمینان نه هو تو اسے خمس دیا جاسکتا هے۔

ص:344

1850۔ اگر کسی شخص کی بیوی سیدانی هو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که شوهر اسے اس مقصد کے لئے خمس نه دے که وه اسے اپنے ذاتی استعمال میں لے آئیں لیکن اگر دوسرے لوگوں کی کفالت اس عورت پر واجب هوں اور وه ان اخراجات کی ادائیگی سے قاصر هو تو انسان کے لئے جائز هے که اپنی بیوی کو خمس دے تاکه وه زیر کفالت لوگوں پر خرچ کرے۔ اور اس عورت کو اس غرض سے خمس دینے کے بارے میں بھی یهی حکم هے جبکه وه (یه رقم) اپنے غیر واجب اخراجات پر صرف کرے (یعنی اس مقصد کے لئے اس خمس نهیں دینا چاهئے)۔

1851۔ اگر انسان پر کسی سید کے یا ایسی سیدانی کے اخراجات واجب هوں جو اس کی بیوی نه هو تو احتیاط واجب کی بنا پر وه اس سید یا سیدانی کے خوراک اور پوشاک کے اخراجات اور باقی واجب اخراجات اپنے خمس سے ادا نهیں کر سکتا۔ هاں اگر وه اس سید یا سیدانی کو خمس کی کچھ رقم اس مقصد سے دے که وه واجب اخراجات کے علاوه اسے دوسری ضروریات پر خرچ کرے تو کوئی حرج نهیں۔

1852۔ اگر کسی فقیر سید کے اخراجات کسی دوسرے شخص پر واجب هوں اور وه شخص اس سید کے اخراجات برداشت نه کر سکتا هو یا استطاعت رکھتا هو لیکن نه دیتا هو تو اس سید کو خمس دیا جاسکتا هے۔

1853۔ احتیاط واجب یه هے که کسی ایک فقیر سید کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیاده خمس نه دیا جائے ۔

1854۔ اگر کسی شخص کے شهر میں کوئی مستحق سید نه هو اور اسے یقین یا اطمینان هو که کوئی ایسا سید بعد میں بھی نهیں ملے گا یا جب تک کوئی مستحق سید ملے خمس کی حفاظت کرنا ممکن نه هو تو ضروری هے که خمس دوسرے شهر لے جائے اور مستحق کو پهنچا دے اور خمس دوسرے شهر لے جانے کے اخراجات خمس میں سے لے سکتا هے اور اگر خمس تلف هو جائے تو اگر اس شخص نے اس کی نگهداشت میں کوتاهی برتی هو تو ضروری هے که اس کا عوض دے اور اگر کوتاهی نه برتی هو تو اس پر کچھ بھی واجب نهیں هے۔

1855۔ جب کسی شخص کے اپنے شهر میں خمس کا مستحق شخص موجود نه هو تو اگرچه اسے یقین یا اطمینان هو که بعد میں مل جائے گا اور خمس کے مستحق شخص کے ملنے تک خمس کی نگهداشت بھی ممکن هو تب بھی وه خمس دوسرے شهر لے جاسکتا هے اور اگر وه خمس کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتے اور وه تلف هو جائے تو اس کے لئے کوئی چیز دینا ضروری نهیں لیکن وه خمس کے دوسری جگه لے جانے کے اخراجات خمس میں سے نهیں لے سکتا هے۔

ص:345

1856۔ اگر کسی شخص کے اپنے شهر میں خمس کا مستحق مل جائے تب بھی وه خمس دوسرے شهر لے جاکر مستحق کو پهنچاسکتا هے البته خمس کا ایک شهر سے دوسرے شهر لے جانا اس قدرتاخیر کا موجب نه هو که خمس پهنچانے میں سستی شمار هو لیکن ضروری هے که اسے لے جانے کے اخراجات خود ادا کرے۔ اور اس صورت میں اگر خمس ضائع هو جائے تو اگرچه اس نے اس کی نگهداشت میں کوتاهی نه برتی هو وه اس کا ذمه دار هے۔

1857۔ اگر کوئی شخص حاکم شرع کے حکم سے خمس دوسرے شهر لے جائے اور وه تلف هو جائے تو اس کے لئے دوباره خمس دینا لازم نهیں اور اسی طرح اگر وه خمس حاکم شرع کے وکیل کو دے دے جو خمس کی وصولی پر مامور هو اور وه وکیل خمس کو ایک شهر سے دوسرے شهر لے جائے تو اس کے لئے بھی یهی حکم هے۔

1858۔ یه جائز نهیں که کسی چیز کی قیمت اس کی اصل قیمت سے زیاده لگا کر اسے بطور خمس دیا جائے۔ اور جیسا که مسئله 1797 میں بتایا گیا هے که کسی دوسری جنس کی شکل میں خمس ادا کرنا ما سوا سونے اور چاندی کے سکوں اور انهین جیسی دوسری چیزوں کے هر صورت میں محل اشکال هے۔

1859۔جس شخص کو خمس کے مستحق شخص سے کچھ لینا هو اور چاهتا هو که اپنا قرضه خمس کی رقم سے منها کر لے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که یا تو حاکم شرع سے اجازت لے یا خمس اس مستحق کو دیدے اور بعد میں مستحق شخص اسے وه مال قرضے کی ادائیگی کے طور پر لوٹا دے اور وه یه بھی کر سکتا هے که خمس کے مستحق شخص کی اجازت سے اس کا وکیل بن کر خود اس کی طرف سے خمس لے لے اور اس سے اپنا قرض چکا لے۔

1860۔ مالک، خمس کے مستحق شخص سے یه شرط نهیں کر سکتا که وه خمس لینے کے بعد اسے واپس لوٹا دے۔ لیکن اگر مستحق شخص خمس لینے کے بعد اسے واپس دینے پر راضی هو جائے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔ مثلاً جس شخص کے ذمے خمس کی زیاده رقم واجب الادا هو اور وه فقیر هو گیا هو اور چاهتا هو که خمس کے مستح لوگوں کا مقروض نه رهے تو اگر خمس کا مستحق شخص راضی هو جائے که اس سے خمس لے کر پھر اسی کو بخش دے تو اس میں کوئی حرج نهیں هے۔