لندن میں گرینڈ آیت اللہ سید علی امام سیستانی (دام ظله)، یورپ، شمالی اور جنوبی امریکہ کے رابطہ دفتر.

توضیح المسائل

بھیڑ کا نصاب

1921۔ بھیڑ کے پانچ نصاب هیں۔

پهلا نصاب 40 هے اور اس کی زکوٰۃ ایک بھیڑ هے اور جب تک بھیڑوں کی تعداد چالیس تک نه پهنچے ان پر زکوٰۃ نهیں هے۔

دوسرا نصاب 121 هے اور اس کی زکوٰۃ دو بھیڑیں هیں۔

تیسرا نصاب 201 هے اور اس کی زکوۃ تین بھیڑیں هیں۔

چوتھا نصاب 301 هے اور اس کی زکوٰۃ چار بھیڑیں هیں۔

پانچواں نصاب 400 اور اس سے اوپر هے اور ان کا حساب سو سے سو تک کرنا ضروری هے اور هر سو بھیڑوں پر ایک بھیڑ دی جائے اور یه ضروری نهیں که زکوٰۃ انهی بھیڑوں میں سے دی جائے بلکه اگر کوئی اور بھیڑیں دے دی جائیں یا بھیڑوں کی قیمت کے برابر نقدی دے دی جائے تو کافی هے۔

1922۔ دو نصابوں کے درمیان زکوٰۃ واجب نهیں هے لهذا اگر کسی کی بھیڑوں کی تعداد پهلے نصاب سے جو که چالیس هے زیاده هو لیکن دوسرے نصاب تک جو 121 هے نه پهنچی هو تو اسے چاهئے که صرف چالیس پر زکوٰۃ دے اور جو تعداد اس سے زیاده هو اس پر زکوٰۃ نهیں هے اور اس کے بعد کے نصابوں کے لئے بھی یهی حکم هے۔

ص:360

1923۔ اونٹ، گائیں اور بھیڑیں جب نصاب کی حد تک پهنچ جائیں تو خواه وه سب نرهوں یا ماده یا کچھ نر هوں اور کچھ ماده ان پر زکوٰۃ واجب هے۔

1924۔ زکوٰۃ کے ضمن میں گائے اور بھینس ایک جنس شمار هوتی هیں اور عربی میں غیر عربی اونٹ ایک جنس هیں۔ اسی طرح بھیڑ، بکرے اور دنبے میں کوئی فرق نهیں هے۔

1925۔ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کے طور پر بھیڑ دے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری هے که وه کم از کم دوسرے سال میں داخل هوچکی هو اور اگر بکری دے تو احتیاط ضروری هے که وه تیسرے سال میں داخل هوچکی هو۔

1926۔ جو بھیڑ کوئی شخص زکوٰۃ کے طور پر دے اگر اس کی قیمت اس کی بھیڑوں سے معمولی سی کم بھی هو تو کوئی حرج نهیں لیکن بهتر هے که ایسی بھیڑ دے جس کی قیمت اس کی هر بھیڑ سے زیاده هو۔ نیز گائے اور اونٹ کے بارے میں بھی یهی حکم هے۔

1927۔ اگر کئی افراد باهم حصے دار هوں تو جس جس کا حصه پهلے نصاب تک پهنچ جائے تو ضروری هے که زکوٰۃدے اور جس کا حصه پهلے نصاب سے کم هو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں۔

1928۔ اگر ایک شخص کی گائیں یا اونٹ یا بھیڑیں مختلف جگھوں پر هوں اور وه سب ملا کر نصاب کے برابر هوں تو ضروری هے که ان کی زکوٰۃ دے۔

1929۔ اگر کسی شخص کی گائیں، بھیڑیں یا اونٹ بیمار اور عیب دار هوں تب بھی ضروری هے که ان کی زکوٰۃ دے۔

1930۔ اگر کسی شخص کی ساری گائیں، بھیڑیں یا اونٹ بیمار یا عیب دار یا بوڑھے هوں تو وه خود انهی میں سے زکوٰۃ دے سکتا هے لیکن اگر وه سب تندرست، بے عیب اور جوان هوں تو وه ان کی زکوٰۃ میں بیمار یا عیب دار یا بوڑھے جانور نهیں دے سکتا بلکه اگر ان میں سے بعض تندرست اور بعض بیمار، کچھ عیب دار اور کچھ بے عیب اور کچھ بوڑھے اور کچھ جوان هوں تو احتیاط واجب یه هے که ان کی زکوٰۃ میں تندرست، بے عیب اور جوان جانور دے۔

1931۔ اگر کوئی شخص گیاره مهینے ختم هونے سے پهلے اپنی گائیں، بھیڑیں اور اونٹ کسی دوسری چیز سے بدل لے یا جو نصاب بنتا هو اسے اسی جنس کے اتنے هی نصاب سے بدل لے مثلاً چالیس بھیڑیں دے کر چالیس اور بھیڑیں لے لے تو

ص:361

اگر ایسا کرنا زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے نه هو تو اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔ لیکن اگر زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے هو تو اس صورت میں جب که دونوں چیزیں ایک هی نوعیت کا فائده رکھتی هوں مثلاً دونوں بھیڑیں دودھ دیتی هوں تو احتیاط لازم یه هے که اس کی زکوٰۃ دے۔

1932۔ جس شخص کو گائے۔ بھیڑ اور اونٹ کی زکوٰۃ دینی ضروری هو اگر وه ان کی زکوٰۃ اپنے کسی دوسرے مال سے دے دے تو جب تک ان جانوروں کی تعداد نصاب سے کم نه هو ضروری هے که هر سال زکوٰۃ دے اور اگر وه زکوٰۃ انهی جانوروں میں سے دے اور وه پهلے نصاب سے کم هو جائیں تو زکوٰۃ اس پر واجب نهیں هے مثلاً جو شخص چالیس بھیڑیں رکھتا هو اگر وه ان کی زکوٰۃ اپنے دوسرے مال سے دے دے تو جب تک اس کی بھیڑیں چالیس سے کم نه هوں ضروری هے که هر سال ایک بھیڑ دے اور اگر خود ان بھیڑوں میں سے زکوٰۃ دے تو جب تک ان کی تعداد چالیس تک نه پهنچ جائے اس پر زکوٰۃ واجب نهیں هے۔